Saturday, July 23, 2011

Page 38,39,40




شہاب نامہ: میری نظر میں

قدرت اللہ شہاب کے لیے کچھ لکھنا مرے بس کی بات نہیں. ممتاز مفتی، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ جیسے لوگ جب یہ بات کرتے ہیں کہ وہ لوگ قدرت اللہ شہاب کو نہیں جانتے تو میں کون ہوں ان کے بارے میں کوئی حتمی راۓ قائم کرنے والا. بہت لوگ ہوں گے ان کو جاننے والے لیکن جو پردہ رکھا ہے انہوں   نے، وہ ان کا بہت  بڑا کارنامہ   ہے. 
زندگی انسان کو عجیب عجیب راہوں سے گزرنے پہ مجبور کرتی ہے. اس وقت کی بات ہے جب میں ١٣ سال کا تھا اور کیڈٹ کالج حسن ابدال میں مجھے پڑھائی کے لیے بھیجا گیا. جاتے وقت مرے والد موحترم نے مجھے ٣ کام کہے. ١. اپنا کردار ہمیشہ ٹھیک رکھنا. ٢. کبھی احساس کمتری محسوس نہی کرنا. ٣. شہاب نامہ ضرور پڑھنا اور بار بار پڑھنا. 

 میرا ماحول، مرے جذبات، میری تربیت، مرے حالات اور میری سوچ نے مجھے بہت کم دفعہ مجبور کیا کہ ان ٣ باتوں سے انحراف کروں. جہاں تک میرا بس چلا، میں نے ان پہ عمل کیا اور کر رہا ہوں. لیکن آخری بات میرا اوڑھنا بچھونا بنتی جا رہی ہے. 
اس کی کچھ وجوہات ہیں. 
١. پہلی وجہ یہ کہ یہ کتاب اک تاریخ ہے، اک ارتقا ہے، اور اک پورا باب ہے پاکستان کا. اگر کوئی شخص پاکستان کے بارے میں کبھی پوستیوے نہیں رہا، تو وہ یہ کتاب اک دفعہ پڑھ لے، میرا یقین ہے کہ اس کی سوچ تبدیل ہو جاۓ گی. 
٢. اس کتاب نے مجھے مسلمان بنانے کا بیڑااٹھا لیا ہے. جو بھی اس کو پڑھتا ہے، یہی کہتا ہے. 
٣. روحانیت کا بارے میں بہت کچھ ایسا تھا جو کہ ابھی تشنہ تھا اگر اس کتاب کا آخری باب "چھوٹا منہ، بڑی بات " نہ لکھا جاتا. 
٤. یہ کتاب آدھا سچ ہے. اس دنیا میں ١/٤ سچ کہا، سنا اور لکھا جاتا ہے. الہامی کتابیں پورا سچ ہوتی ہیں. اور یہ کتاب آدھا ہے. اس کی وجہ یہ کہ شہاب صاحب نے ہمیشہ اپنا نقطہ نظر محفوظ رکھا ہے اور حالات کی سچائی دکھائی ہے. 
٥. اس کتاب کو کسی بھی ادبی نقطہ نظر سے کسی بھی ادبی شاہکار سے کم نہی کیا جا سکتا . 

انسان کو سب کچھ اپنے اپنے وقت پہ ملتا ہے. یہ کتاب، یہ تعلق، یہ کام اور یہ محبت یہ سب تو ان کا  ہے. میں  تو بس 

                                 کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
                                  گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں